Saturday, October 12, 2019

Ghazva E Badr

Ghazva E Badr


”غزوہ بدر“یوم الفرقان

اسلام کا مکّی دور مسلما نوں کے لئے انتہائی ابتلا اور مشکلات کا دور تھا،ظلم کی ہر شکل سے فرزندانِ اسلام کو واسطہ پڑا، ذہنی و جسمانی اذیّت کے اندوہناک باب رقم ہوئے



اکٹر ضیاء الحبیب صابری:
اسلام کا مکّی دور مسلما نوں کے لئے انتہائی ابتلا اور مشکلات کا دور تھا،ظلم کی ہر شکل سے فرزندانِ اسلام کو واسطہ پڑا، ذہنی و جسمانی اذیّت کے اندوہناک باب رقم ہوئے ، اور اللہ کی وحدانیت کا اقرارنا قابلِ در گزر جرم بن چکا تھا۔ بیت اللہ جو صنم کدہ میں بدل چکا تھا اسکا ذرہ ذرہ عباد الرحمن کی پُرعزم جبینوں کو چومنے کے لئے صدیوں سے ترس رہا تھا۔
حرمِ کعبہ کے متولّیوں کے خلاف اعلانِ مقاطعہ اور بنی ہاشم کا شعبِ ابی طالب میں برسوں تک بے گناہی کی سزا کے طور پر فلاکت و عسرت کی زندگی بسر کرنا معمول بن گیا تھا۔ اللہ رب العزت کے محبوب رسول کریم پر حالتِ نماز میں اونٹ کا غلیظ اوجھ پھینکنا، راستوں میں کانٹے بچھانا ،کوڑا پھینکنا، آپ کو دیکھ کر یاوہ گوئی کرنا،اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلسل نشانہء ستم بنائے رکھنا کفار مکہ کا مسلسل وطیرہ بن گیا تھا۔

ظلم کا دور جاری تھا کہ مشیتِ الٰہی کے تحت مسلمان ترک وطن پر مامورہوئے، اہلِ مکّہ یہ بھی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے مسلمانوں کا تعاقب جاری رکھا۔ مشرکینِ مکّہ نے مسلمانوں کو پناہ دینے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی، حتّٰی کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری ہجرت کر کے مدینہ منوّرہ آگئے تو کفّار کو یہ بھی ناگوار گزرا، چنانچہ آئے دن وہ مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں لگے رہتے۔
ہجرت کے بعد مدینہ منوّرہ کے با اثر لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا اور انہیں پناہ دینے سے روکنے کی کوشش ان کا اولین مقصد بن گیا۔ چنانچہ اس منظر کے پیش نظرآنحضور نے حفظ ما تقدم کے طور پر مدینہ منوّرہ کے مضافات میں وقتاً فوقتاً گشتی وفود بھیجنا شروع کر دیے تا کہ کفارِ مکّہ کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی جا سکے۔ چنانچہ اسی دوران ایک دفعہ کی مڈ بھیڑ میں عمرو بن فہرالحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو گیا۔

انہی دنوں ابو سفیان بن حرب اموی کو شام سے واپسی پر راستے میں کسی نے خبر دی کہ مسلمان تمہارے قافلے کو لوٹنا چاہتے ہیں، اس اطلاع کے پاتے ہی اپنے ایک رفیقِ سفر ضمضم غفاری کو مکہ روانہ کردیا کہ وہ جاکر اس صورت حال سے سردارانِ مکہ کو باخبر کردے۔اس خبر کے ساتھ ضمضم غفاری کے مکہ پہنچتے ہی قریش مکہ مشتعل ہوگئے ،اور مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنے لگے پُرزور کوششیں شروع کر دیں،ادھرابوسفیان صحیح سلامت قافلہ لے کر مکہ مکرمہ آگیا تو بہت سے اہلِ مکہ نے کہا کہ اب لشکر کشی کی ضرورت نہیں کیو نکہ قافلہ با خیریت آگیا ہے ،لیکن مدینہ منورہ میں اسلام کی پذیرائی اور مسلمانوں کی ترقی سے ابو جہل بہت پریشان تھا ،اس کے خیال میں مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ایک اچھا موقع تھا لہٰذا اس نے سردارانِ قریش پر زور دیا کہ اب مدینہ کی طرف پیش قدمی ضرور کرنی چاہیے ، لیکن امیّہ بن خلف،عاص بن ہشام وغیرہ نے زیادہ پس و پیش دکھایا تو ابو لہب نے عاص بن ہشام پر (جو ابو لہب کا مقروض تھا ) قر ض کی وصولی کے لیے دباوٴ ڈالا یہاں تک کہ اس کو جنگ کے لیے آمادہ کر لیا۔
ابوجہل اپنے مکروہ عزائم پر بضد رہا اور یوں وہ جوانوں کا ایک لشکر لے کر مدینہ منورہ سے 98میل کے فاصلے بدر کے مقام پر آن پہنچا۔
ادھر مدینہ منورہ میں پیارے نبی حضرت محمد کو جب ان حالات کی خبر ملی تو آپ نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور اس نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا، چنانچہ رمضان المبارک کی آٹھویں تاریخ کو تین سو تیرہ جاں نثاروں کی جماعت کے ساتھ مدینہ منورہ سے مشرکین کاراستہ روکنے کیلئے روانہ ہوئے، مدینہ منورہ میں مشہور صحابی حضرت عمرو بن امِ مکتوم کو نائب مقرر فرمایا ،پھر مقامِ روحا پر پہنچ کر حضرت ابو لبابہ بن المنذر کو نیابت سپرد فرما کر واپس کردیا، انتہائی بے سرو ساما نی کے عالم میں یہ قدسی صفات مردانِ حق آج پرچمِ حق بلند کرکے باطل کو سر نگوں کرنے پورے ایمان کے ساتھ سوئے منزل جارہے ہیں ،اس سارے لشکر میں صرف دو سپاہیوں(حضرت مقداد بن عمرو اور حضرت مرثد بن ابی المرثد غنوی ) کے پاس ایک ایک گھوڑا ہے، جبکہ چند دیگر صحابہ کے پاس سواری کے چند اْونٹ تھے،اس بے سرو سامانی کا اندازہ اس امر سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ خود قائدِ لشکر علیہ وآلہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ مزید دو حضرات (حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت لبابہ) ہم رکاب ہیں، اور آپ اپنے دونوں ہمسفروں کے ساتھ سواری میں امتیازی حیثیت کے بجائے باقاعدہ باری باری سواری فرماتے ہیں۔
آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ منزل بمنزل جب بدر پہنچے تو قریش پہلے ہی یہاں آچکے تھے اور وہ اپنی پسند کے مطابق موزوں جگہ پر خیمے گاڑھ چکے تھے۔ مسلمانوں کے لیئے سنگلاخ اور ریتلی زمین کے سوا کوئی جگہ نہ تھی جبکہ پانی کا چشمہ بھی قریش مکہ کے قبضہ میں تھا۔ رسول پاک نے اپنے سپاہیوں کو اس موقع پر جو ہدایات ارشاد فرمائیں وہ آپ کے اعلیٰ ترین سپہ سالار ہونے کی بہترین مثال ہیں۔

آپ نے قریش کے غلام سے دریافت فرمایا کہ قریش میں سے کون کون ہیں، تو بتایا گیا کہ ابو جہل کے ساتھ عتبہ و شیبہ، امیّہ بن خلف کے علاوہ سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود، منبہ و نبیہ، ابوالبختری بن ہشام نوفل بن خویلد، حارث بن عامر ، نضر بن الحارث اور حکیم بن حزام بھی شامل ہیں۔
آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ مکہ نے آج اپنے تمام جگر گوشے تمہاری جانب پھینک دیے ہیں۔
آپ نے جو ہدایات ارشاد فرمائیں ان میں فرمایا صف بندی کرتے وقت پشت سورج کی طرف رکھنا، بلااجازت حملے کے لیے آگے مت بڑھنا۔ خواہ مخواہ عورتوں، بچوں، غلاموں، نوکروں اور لڑائی میں حصہ نہ لینے والوں پر ہتھیار مت اٹھانااور زخمیوں کو اذیت نہ دینا۔ آپ نے چھری سے نشاندہی کر دی کہ کل ابو جہل اس جگہ قتل ہوگا، اس کے علاوہ عتبہ و شیبہ کے مقتل کا نشان لگایا۔

معرکہ پڑنے سے پہلے رات کی نماز کے بعد آپ نے اپنے اللہ سے دعا کی
ترجمہ:اے اللہ! قریش کا یہ جتھا جو بڑے تکبر و غرور کے ساتھ مقابلہ کے لیے آیا ہے، تیری مخالفت کرتا ہے اور تیرے رسول کی تکذیب کرتا ہے۔ اے اللہ! اپنی فتح و نصرت عطا فرما جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔ اسی طرح آپ نے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! اپنے ان مٹھی بھر بندوں کی حفاظت فرما ورنہ روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
چنانچہ غیب سے مسلمانوں کی فتح و نصرت کے اسباب جمع ہونا شروع ہو گئے۔
نصرتِ الٰہی نے ایک اور رنگ دکھایا کہ خشک ،سنگلاخ پہاڑوں کے وسط میں وادیِ بدر میں بارش شروع ہو گئی، جس سے قریشِ مکہ کی جانب مٹی والی زمین دَلدل اور کیچڑ میں بدل گئی اور مسلمانوں کی جانب ریتلی زمین بارش سے جم گئی،اور نشیب میں پینے کا پانی جمع ہوگیا۔ معرکہ حق و باطل شروع ہونے پر آنحضرت نے مٹی کی مٹھی لشکرِ کفار پر پھینکی، اس مٹی کے پھینکنے میں کیا رعب و جلال اور ہیبت تھی کہ خود ربِ دو جہاں نے فرمایا
ترجمہ:”اے محبوب!آپ نے نہیں پھینکی جو آپ نے پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی “بس پھر کیا تھا، لشکرِ کفار میں بھگدڑ مچ گئی، سارا غرور خاک میں مل گیا، باطل کے سارے گھمنڈ ٹوٹ گئے ،کفار سرداروں سمیت 70جہنمیوں کی لاشیں اور 70 قیدی پیچھے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے، اور دنیا پر ثابت کردیا کہ فتح و کامرانی کا راز سامان و وسائل کی فراوانی نہیں بلکہ جذبہ اور ایمان سب سے بڑی قوت ہے۔

No comments:

Post a Comment